سرد موسم کی طویل راتوں کا معاملہ یہ ہے کہ جیسے جیسے شب کا سکوت گہرا ہونے لگتا ہے مطالعے کا لطف بڑھتا جاتا ہے مگر ساتھ ہی یہ فکر بھی دامن گیر ہونے لگتی ہے کہ صبح جلدی اٹھ کر دن بھر کی مصروفیات کے لیے کچھ وقت تو سونا ہی پڑے گا۔ خیر یہ آنکھ مچولی اپنی جگہ، جبکہ مطالعہ اور وہ بھی سرد موسم میں، ایک بےحد خوشگوار تجربہ ہے جس کو ضائع کرنا بڑی محرومی کی بات ہے۔
آج ایک تصویر نظر آئی جس میں برادرم محمود الحسن اپنی اولیں کتاب ‘شرف ہم کلامی’ ہاتھ میں پکڑے کھڑے ہیں، یہ موقع تھا لاہور انٹرنیشنل بک فیئر کا اور سنگ میل کے اسٹال پر تصویر بن گئی۔ وہ کوئی سعادت والی گھڑی ہی ہو گی ورنہ جنابِ مصنف ایسی تشہیر سے عموما دور و نفور ہی نظر آئے بلکہ کسی حد تک اس انداز کے حامل کہ ان کی کتابوں کا زیادہ لوگوں کو علم نہ ہونے پائے۔ حتی کہ کتاب پر آٹو گراف دینے سے بھی غچہ دیکر نکل جاتے ہیں۔
محترم محمود الحسن صاحب نے پہلی کتاب انتظار صاحب کے ساتھ کی گئی باتوں کو تحریری شکل دیکر کر ترتیب دی تھی جس نے پڑھنے والوں کو دونوں کا گرویدہ کر لیا۔ اس موقع پر خاکسار نے ایک محبت بھرا شذرہ لکھا تھا جو تلاش بسیار کے باوجود مل نہیں سکا۔ لیکن اس کے بعد ان کا شکریہ اور پھر ایک اور میسج موصول ہوا۔ مجھے یاد ہے کہ لاہور ریلوے اسٹیشن کے قریب کسی سواری میں بیٹھا تھا جب محمود بھائی نے بتایا کہ: ‘ابھی کچھ دیر پہلے خورشید رضوی صاحب سے فون پر بات ہوئی ان کو شرف ہم کلامی پسند آئی, ان کی تعریف سے اتنی خوشی ہوئی کہ بیان سے باہر ہے, آپ کو اس لیے بتا رہا ہوں کہ آپ جانتے ہیں وہ کتنے بڑے آدمی ہیں’ یہ کم و بیش آج سے آٹھ برس قبل کی بات ہے۔ اس کے بعد ان کی مزید کئی کتب شائع ہوئیں جن کے بارے میں چند شذرات جو اسی وقت لکھے گئے پیش خدمت کرتا ہوں۔
مثلا جب انہوں نے لاہور کے عاشق، تین ادیبوں کے عشقِ لاہور کو بیان کرنے کے لیے ایک کتاب ‘لاہور شہرِ پُر کمال لکھی تو خاکسار شہر سے باہر تھا اور اس عالم میں لکھا کہ: ‘یہ کتاب ایک ایسا محبوب ہے جس کا ذکر سن کر ہی اس سے عشق ہو گیا ہو اور وصل کی آرزو نے بےچین کر دیا ہو۔ عہد بنو عباس کا ایک شاعر جعفر بن علبہ الحارثی مکہ میں اسیری کے دوران اپنی ایک اچھوتی تصوراتی نظم میں کہتا ہے: ‘وہ یمنی سواروں کے پہلو بہ پہلو سفر کی منزلیں طے کر رہی ہے اور میں مکہ میں قید ہوں مجھے رات کے وقت اس کے مجھ تک رسائی پا لینے پر حیرت ہو رہی ہے کیونکہ قید خانے کا دروازہ تو میرے سامنے مقفل ہے’ مجھے لگ رہا ہے کہ لاہور واپس پہنچنے تک اس محبوب کتاب سے بھی تصور میں ہی ملاقاتیں ہوں گی اور یوں یہ کتاب بھی عشق کی ‘کاغذی کاروائی’ کے بعد ہی اپنا جلوہ دکھائے گی’ شمس الرحمن فاروقی جیسے نابغۂ روزگار عالم ادبیات، فکشن نگار و نقاد سے ہونے والی بات چیت کو محمود بھائی نے ترتیب دیا تو طالب علم نے خراج تحسین پیش کرتے ہوئے لکھا کہ: ‘سنا ہے کہ مطالعے کے شوقین معاشروں میں کسی اچھی کتاب کی اشاعت کی خبر، اشاعت سے پہلے ہی عام ہو کر، کتاب کی ایڈوانس بکنگ کروا کر، شائقین کو اس روز قطاروں میں لا کھڑا کرتی ہے جس روز کتاب پہلی بار شائع ہو کر ان کے ہاتھوں تک پہنچنی ہوتی ہے۔ ہمارے ہاں کتاب اور مصنف کے ساتھ ایسا کوئی اندازِ محبت تو ایک خواب ہی ہو سکتا ہے لیکن محمود بھائی کی شخصیت اور تحریر کے مجھ سمیت کئی ایسے مداح ہوں گے جن کو اس کتاب کے شائع ہونے کا بڑے ذوق و شوق سے انتظار تھا اور گاہ گاہ یہ خبر ذہن میں تازہ ہو کر تازہ ہوا کے سہانے جھونکے لاتی رہتی تھی۔ کتاب کے دستیاب ہونے تک فقط اس خبر پر ہی خوش ہونا پڑے گا اور ناشر اور تقسیم کار ادارے کی عنایت سے کتاب دکان پر دستیاب بھی ہو گئی تو مصنف کے دور و نزدیک بیٹھے ہوئے تمام دوست بہت خوش ہوں گے’
بعد ازاں غالبا ہمارے محبوب مصنف کی اب تک کی آخری کتاب گزری ہوئی دنیا سے ہے۔ اس کو پڑھنے والا بھی اس جہان سے کہیں اور ہی کھو جاتا ہے، اس زمانے جو رفت گزشت ہوا۔ خاکسار نے اس کتاب کی اشاعت پر اظہار مسرت یوں کیا تھا: عزیز دوست جناب محمود الحسن کی نئی کتاب مل گئی جس کی خوشی بہت زیادہ ہے۔ مصنفِ ذی وقار کی خدمت میں مبارکباد۔ اس میں شامل بیشتر تحریریں پہلے بھی پڑھ چکا ہوں لیکن کتابی شکل میں پڑھنے اور محفوظ رکھنے کا الگ لطف ہوتا ہے اور پھر ان تحریروں میں ان کے مصنف جیسی دل کشی بھی وافر ہے، لہذا جیسے منصف سے بار بار ملنے کو جی چاہتا ہے ویسے ہی یہ تحریریں بھی بار بار پڑھے جانے کے لائق ہیں’ جی ہاں! آپ درست سمجھے ہیں کہ یہ شذرات ان کتابوں کی اشاعت یا وصولی کی خوشی کو بیان کر رہے ہیں۔ لیکن یہ تو آپ کو مطالعہ کر کے ہی معلوم ہو سکے گا کہ آخر ان کتابوں میں ایسا کیا ہے اور مصنف کے قلم میں کیسی کشش رعنائی ہے جو فقط کتاب کی اشاعت یا وصولی پر ہی خوشی سے سرشار کر دیتی ہے۔ لہذا ان سب کتابوں کا سیٹ حاصل کیجیے، اور سرما کی جادو بھری شاموں میں مطالعہ کیجیے۔ ہیپی دسمبر، ہیپی ونٹر، ہیپی سٹدی سیزن!