ہم یہاں یہ ان سطور سے یہ نتیجہ اخذ کر سکتے ہیں کہ انتظار حسین کے نزدیک:
۱۔ افسانہ نگاری ایک تخلیقی عمل ہے ، یہ ایسی نثر نگاری ، ماجرا نگاری یا مضمون نویسی نہیں ہے جس میں افادیت کا پہلو مدنظر رکھ کر انہیں لکھا جاتا ہے۔ایسا بھی نہیں ہے کہ انتظار حسین تخلیق کے افادی پہلو کو یکسر مسترد کرتے ہوں گے، جہاں تک میں سمجھ پایا ہوں کہ وہ محض ایسا چاہتے ہیں کہ اسے طے شدہ افادی عمل نہیں ہونا چاہیے؛ ایسی طے شدہ افادیت تک پہنچنے والا عمل جس کا اعلان پہلے ہی کر دیا جائے کہ یہ حاصل ہونے جا رہا ہے؛ اس باب کی مثال شہد کی مکھی کے نام میں شہد کی موجودی کو لیا گیا ہے۔
۲۔ یہ تخلیق کار کا نجی معاملہ ہے؛ کسی اجتماع، تحریک یا تنظیم کا نہیں۔ افسانے کی عمارت کی تعمیر کوئی بڑا قلعہ بنانے جیسی نہیں ہوتی جس کو پہلے سے موجود نقشے کے مطابق چھوٹے بڑے ان گنت معمار مل کر تعمیر کررہے ہوتے ہیں۔اس باب کی مثال ’پنچایتی آرٹ ‘کی پھبتی کے ساتھ شہد کے چھتے کی گہما گہمی کو بنایا گیا ہے۔ گویا تخلیق کار کو یہاں کورے کاغذ کے سامنے اکیلے ہی پیش ہونا ہوتا ہے ؛ تنہا ہوکر ،وجودی سطح پر ایک زندہ تعلق کا دھاگا تلاش کرتے ہوئے اور اس کا سرا پکڑکر آخرتک چلتے ہوئے ۔
بئے کو افسانہ نگاری کی ’سند ‘کیوں نہیں مانا گیا انتظار حسین کے پاس اس کا جواز یہ ہے کہ:
’’رہا بئے کا معاملہ تو بے شک بچپن میں جنگلوں میں آوارہ پھرتے ہوئے کبھی کبھی کسی درخت کی طرف نگاہ اٹھی ہے اور اسے معلق ننھا منا محل کہئے یا آویزاں باغ سمجھئے،اُس پہ نگاہیں جمی کی جمی رہ گئی ہیں ۔ یہ تعلق اول تو ایسا گہرا نہیں ۔ پھر بئے کو میں ماہر تعمیرات تسلیم کرلوں گا ،افسانہ نگار نہیں مانوں گا۔‘‘
گویا محض مشاہدہ کافی نہیں ہے۔ افسانہ ’گہرے تعلق‘ کی عطا ہوتا ہے۔ ہاں یہیں کہیں اوپر ایک اور جملہ تھا جس پر سے دھیان پھسل دوسرے امور کی طرف ہو گیا، حالاں کہ جس قضیے کو انتظار حسین لے کر چلے ہیں ، اس کا یہی مرکزی نقطہ ہے۔ وہ جملہ بھی یہاں مقتبس کیے دیتا ہوں:
’’زندہ تعلق اپنا کتابوں سے نہیں رہا(سوائے اُن گنتی کی کتابوں کے ،جو اپنے لیے کتابیں نہیں رہیں ،مخلوقات بن گئیں )مخلوقات سے بے شک رہا۔‘‘
میں اس جملے اس افسانے میں ابھر کر سامنے ٓنے والے قضیے کا یوں مرکزی نقطہ سمجھتا ہوں کہ یہیں سے علمی طرز استدال اور فکشن کا زندگی کو سمجھنے کا قرینہ دونوں کی راہیں جدا ہوجاتی ہیں۔ اس الگ منہاج میں فکری دلائل اورعلمی حوالہ جات ثانوی ہو جاتے ہیں اورتخلیق کار اُس زمان اور مکان میں پہنچ کراپنے حسی نظام اور میٹا فزیکل اپروچ کو کام میں لاتے ہوئے انسانی صورت حال کو قلم کی سیاہی بناتا ہے جس میں کہانی کے کردار پھینک دیے گئے ہوتے ہیں ۔ تاہم قوسین میں موجود عبارت اس استثنائی صورت کو بھی نشان زد کر رہی ہے جس میں کوئی کتاب مخلوقات کی سطح پرآکر تخلیقی تجربے میں شامل ہو جاتی ہیں ۔ اور ماضی میں لکھا گیا کوئی متن نئے تخلیقی متن کے ساتھ ایک رشتہ قائم کر لیتا ہے۔
جس انجنہاری کو انتظار حسین نے ’سند‘ کے طور پر لیا ہے اسے ہمارے ہاں کمہارن کہہ کر پہچانا جاتا ہے، بھڑ سے مشابہہ مکھی ، جو گھر بنانے کو گیلی مٹی کہیں سے لاتی ہے اور بالعموم دو دیواروں کی بغل میں چپکا چپکا کر گھر بنا تی ہے۔ یہ نام اور یہ مکھی اردو فکشن کی دنیا میں انتظار حسین لے تو آئے مگر بہت سوں نے اسے دیکھا تک نہ ہوگا؛ میں نے بھی اپنے بچپن میں اسے دیکھ رکھا اور اب گماں باندھ سکتا ہوں کہ ہو نہ ہو یہ وہی مکھی ہے جسے انگریزی میں میسن بی
(Mason Bee)
کہتے ہیں ۔ الگ تھلگ رہنے والی ، وہ کسی چھتے میں نہیں رہتی اور نہ ہی کسی کالونی میں نظر آئے گی کہ اسے اپنے مٹی کے چھوٹے سے گھر میں الگ تھلگ رہنا ہوتا ہے ۔ یہ مکھی سہی مگر شہد کی مکھی یا بھڑ کی طرح ڈنک نہیں مارتی ۔ اس کی ڈیڑھ دو سو اقسام دریافت ہو چکی ہیں ؛ انہی میں سے ایک قسم کی انجنہاری انتظار حسین کے مشاہدے میں ا ٓئی ہوگی اور اس کے زندگی کے قرینوں کو دیکھ کر اُسے افسانہ نگاری کا پیغمبربنا لیا ہوگا۔