فارسی ہماری ادبی اور تہذیبی روایت کا ایک حسین وجمیل مظہر ہے ۔اردوکے بڑے شعرا فارسی روایت ہی سے مستفیض ہوئے ہیں بلکہ اردوشعری روایت کے سربرآوردہ ترین نمائندے اردوکے ساتھ فارسی کے بھی شاعر رہے ہیں ۔غالب جیسا مسلم الثبوت شاعر خود کو فارسی کا شاعر کہلواناچاہتاہے اور برملااس بات کااظہارکرتاہے کہ اس کے فن کا حقیقی رنگ فارسی ہی میں پوشیدہ ہے، اس کا اردوکلام تو محض بے رنگ ہے۔اسی طرح خدائے سخن میرتقی میر فارسی کے صاحب دیوان شاعر ہیں ،درد ،سودا،میرسوز اس دورکے سب بڑے شعرا بہ یک وقت اردواور فارسی میں شعرکہتے تھے۔اقبال تک پہنچتے پہنچتے تو یہ روایت اپنے عروج کو پہنچ گئی جب اقبال نے اپنے اظہارکے لیے فارسی کوچنا اورکہاکہ اگرچہ میرادل حریم حجازسے الہام کشیدکرتاہے لیکن میری نوا شیرازسے جنم لیتی ہے یعنی میں اپنے اظہارکے لیے فارسی کو پسند کرتاہوں یہی وجہ ہے کہ ان کا دوتہائی کلام فارسی میں ہے ۔
مولاناظفرعلی خان ہماری قومی تاریخ کے نام ور راہنمائوں میں سے ہیں۔ وہ بہ یک وقت ایک نام ور قومی راہ نما،شاعر، صحافی اور دانشور تھے ۔ان کی منظومات بہارستان ،نگارستان، چمنستان ،خیالستان اور ارمغان قادیان نامی مجموعوں کی شکل میں محفوظ ہیں۔یہ مجموعے جہاں ہماری قومی جدوجہدکی منظوم تاریخ ہیں وہیں ہماری ملی اور ادبی روایت کے بھی ناقابل فراموش نقوش پیش کرتے ہیں ۔مولاناکی شاعری کا جہاں لسانی اور ادبی حوالہ اہم ہے وہیں اس کاسیاسی اور معاشرتی پس منظر بھی نہایت اہم ہے ۔وہ اردوکی ادبی روایت سے مضبوطی کے ساتھ منسلک ہیں اور یہ معلوم ہی ہے کہ اردوکی روایت کی تشکیل فارسی اور عربی کے سرچشموں کی مددسے ہوئی ہے ۔مولاناکے ہاں فارسی کلاسیکی ادبیات کے اثرات ایک بڑے تحقیقی مقالے کا موضوع ہے یہی نہیں ان کابہت سا کلام براہ راست فارسی میں بھی ہے ،جس کاسب سے بڑامظہر ان کا ضخیم ترین مجموعہ کلام ’’بہارستان‘‘ ہے جس کی متعدد نظمیں فارسی میں ہیں ،بہت سی نظموں میں فارسی اساتذہ کے اشعار کی تضمین کی گئی ہے بعض مقامات پر فارسی اساتذہ کے طویل اقتباسات اپنی نظموں میں شامل کیے گئے ہیں ۔بعض اوقات اردونظموں کوفارسی عنوانات سے مزین کیاہے مثلاایک اردونظم کاعنوان ہے ’’توبہ فرمایان چراخود توبہ کمترمی کنند‘‘اوراس کے آخر میں سعدی کا شعرتضمین کرتے ہوئے سعدی کو چچاکے لقب سے ملقب کیاہے اورسعدی کے لیے انھوںنے یہ لقب کچھ اور منظومات میں بھی استعمال کیاہے:
کہ گئے خوب ہی چچاسعدی
ترک دنیابہ مسلم آموزند
خویشتن سیم وغلہ اندوزند
بعض اساتذہ کی نظموں کا اردو ترجمہ بھی کیاہے۔ترجمہ انگریزی سے اردومیں ہویا فارسی سے اردومیں ،اس فن میں مولاناکی مہارت غیرمعمولی ہے اوران کے ہاں اس فن میں کمال کااظہاربہت ابتداسے دکھائی دیتاہے جیساکہ ان کے مجموعہ کلام میں ۱۸۹۹ء میں کیاگیا حکیم ناصرخسرو علوی خراسانی کی ایک نظم کااردوترجمہ بھی موجود ہے جسے انھوںنے’’ شہرآشوب‘‘ کانام دیاہے ۔فارسی سے لگائو کا یہ عالم ہے کہ وہ انگریزی سے اردوترجمہ کرتے ہوئے بھی فارسی ترجمے کی طرف مائل ہوجاتے ہیں جیساکہ انگریزی کے مہم جو افسانہ نگار Sir Henry Rider Haggardکی کتاب The People of the Mist کااردوترجمہ کرتے ہوئے وہ اس کے دیباچے کا ترجمہ فارسی نظم میں کرڈالتے ہیں ۔یہ کتاب کتابی صورت میں پہلی بار لندن سے اکتوبر۱۸۹۴ء میں شائع ہوئی تھی اورمولانانے جون ۱۹۰۰ء میں’’ سیرظلمات‘‘ کے نام سے اس کا اردوترجمہ کرڈالاتھا۔دیباچے کے اس ترجمے کو انھوںنے’’ صدنقش بیک پردہ ‘‘کاعنوان دیاہے اور اس میں کہاہے کہ
خواستم گفتن ازاعجاز نگارش سری
منکہ صدنقش بہ یک پردہ ہویداکردم
بعض اوقات وہ اردوکی کسی نظم کااختتام فارسی کے کسی شعرپر کرتے ہیں اور اس حسن ختام کے لیے ایسے شعرکاانتخاب کرتے ہیں کہ ساری نظم کا جوہر کشیدہوکر اس میں آجاتاہے۔ مثال کے طورپر انھوںنے معاہدہ سیورے پر جو نظم لکھی اس کااختتام غالب کے اس مطلعے پر کیا ؎
بیاکہ قاعدہ آسمان بگردانیم
قضابگردش رطل گران بگردانیم
فارسی سے مولاناکی محبت کااظہار جہاں فارسی میں شعرکہنے ،تضمین کرنے ،فارسی الفاظ وتراکیب استعمال کرنے اور فارسی میںترجمہ کرنے سے ہواہے، وہاں انھوںنے براہ راست فارسی کے بارے میں بھی اپنے خیالات کا اظہارکیاہے ۔ان کاکہناہے کہ لطافت خیال اور نزاکت اظہار کے جیسے اسالیب فارسی میں موجودہیں وہ دوسری زبانوں میں نہیں ہیں۔ جب سے ہمارے ہاں فارسی سے تعلق کمزورہواہے ہماری معاشرت میںنزاکت ولطافت کے معیار وں میں بھی کمی آئی ہے۔مولاناکاکہناہے کہ فارسی ادبیات سے تعلق میں کمی ہوجانے سے لہجے میں درشتگی اور زبان میں کرختگی آتی ہے ۔فارسی زبان، اسلوب کی لطافت ہی نہیں، بیان کی تہ داری اور پردہ داری کی بھی امین ہے ۔وہ مطالب جو دوسری زبانوں میں طول طویل بیان کے محتاج ہوتے ہیں فارسی کی تشبیہات اور علائم ورموزکے ذریعے نہایت کم الفاظ میں اداہوجاتے ہیں اور یوں فارسی برہنہ حرف نہ گفتن کمال گویائی کی منزل پر بہ آسانی پہنچادیتی ہے ۔علامہ اقبال سے جب فارسی میں لکھنے کی وجہ دریافت کی گئی تھی توانھوںنے کہاتھا کہ یہ خیالات مجھ پر فارسی ہی میں وارد ہوتے ہیں ۔دیکھیے فارسی کے بارے میں مولاناظفرعلی خان کیارائے رکھتے ہیں ۔ذیل میں فارسی کے بارے میں مولاناکے نایاب اشعار پیش کیے جارہے ہیں۔یہ اشعارانھوں نے ۲۹؍اگست ۱۹۱۷ء کو کہے جو ان کی ایک نہایت دلچسپ نظم کا حصہ قرارپائے۔ یہ نظم انھوں نے ’’چو‘‘کی لفظی تحقیق کے لیے سپرد قلم کی تھی :
لہجہ ہوا درشت زباں ہوگئی کرخت
لطف کلام و شستگی گفتگو گئی
معنی کوہے گلہ کہ ہوا بے نقاب میں
شکوہ ہے لفظ کو کہ مری آبرو گئی
افسوس ملک میں نہ رہی فارسی کی قدر
مستی اڑی شراب سے پھولوں سے بوگئ