شغلِ بے کاری میں تارے توڑ لاتے ہیں یہ لوگ
دیکھیے، اہلِ جنوں کو کچھ نہ کرنے دیجئے
یہ ’’بے کاری‘‘ تخلیقی فرصت سے عبارت ہے۔ نیوٹن کو ایسے ہی بے کار بیٹھے بیٹھے درخت سے گرتے سیب نے کہاں سے کہاں پہنچا دیا۔ اس ایک لمحۂ فراغت نے دنیا ہی بدل دی مگر سرمایہ داری اور سرمایہ کاری کی گرفت جوں جوں مضبوط ہو تی گئی وقت کے مسام بند ہوتے چلے گئے۔ اب خدانخواستہ کوئی فارغ ہو ہی کیوں۔ بجلی کا بل‘ لائسنس کی تجدید‘ کوئی فارم داخل کرنے کی آخری تاریخ‘ بینک سے آنے والی اچانک کال کہ آپ کا اکاﺅنٹ خوابیدہ ہوا چاہتا ہے ضروری کارروائی کے لیے فوراً آئیے…
آپ کسی دفتر میں فون کرتے ہیں تو ایکسچینج مصروف ملتا ہے۔ مشین آپ کو انتظار فرمائیے کی تلقین کرتی ہے مگر اس وقفۂ انتظار میں بھی خاموشی نہیں ہوتی مبادا اسی ایک لمحے میں کوئی اچھا سا خیال آپ کے ذہن میں آ جائے۔ ایکسچینج کی طرف سے موسیقی کا اہتمام ہوتا ہے۔ آپ کا اپنا کچھ نہیں۔ سب انتظام دوسروں نے کر رکھا ہے۔
اگر آپ بہت نوعمر نہیں تو آپ کو وہ سنہرے ایام یاد ہوں گے جب دن بھر میں دو ایک مرتبہ موبائل پر ایس ایم ایس کی گھنٹی سن کر دل کی دھڑکن تیز ہو جاتی تھی کہ یقیناً اپنے کسی پیارے کا پیغام آیا ہے۔ مگر اب آپ کی اجازت کے بغیر‘ آپ کا نمبر سینکڑوں ہزاروں لوگوں کے پاس پہنچ گیا ہے جو آپ کی زندگی سنوارنے کے لیے ہمہ وقت حاضر ہیں۔ کوئی زمین کی خریدوفروخت کی دعوت دے رہا ہے۔ کوئی کہتا ہے پرانے اے سی بیچ لو۔ کوئی بچوں کے لیے ٹیوشن کی خدمات پیش کر رہا ہے۔ آپ کی تنہائی کے زرہ بکتر میں اب چھید ہی چھید ہیں۔ وقت چھوٹی چھوٹی کرچیوں میں بٹ کر رہ گیا ہے۔ اب آپ روزانہ کی بنیاد پر بھی نہیں لمحوں کی بنیاد پر زندہ ہیں۔
اس مختصر سی زندگی میں قدرت نے فرصت کے لمحوں کا انعام رکھا ہوا تھا اور انہی میں سے کوئی لمحہ تخلیقی فرصت کا لمحہ بھی ثابت ہو جایا کرتا تھا۔ انہی تخلیقی لمحات میں انسان جست بھرتا ہوا کہیں سے کہیں آ نکلا ہے۔ کیا ہم خارج کا فالتو بوجھ انسانوں کے داخل پر ڈالنے کی یلغار اسی طرح جاری رکھیں گے؟ کیا ہم نہیں چاہتے کہ کوئی اور نیوٹن‘ البیرونی‘ ابن خلدون‘ شکسپیئر‘ غالب یا آئن سٹائن ہماری دنیا میں داخل ہو؟ اگر ہمیں ایسے لوگ درکار ہیں تو اپنی روزمرہ زندگی میں رسمیات کی لوڈشیڈنگ کرنا ہوگی۔ ہمارے پاس وقت کے سوا کچھ نہیں۔ اس کی کترنیں نہ بنائیں۔ اس کے مسام کھلے رہنے دیں اور اہل جنوں کو کچھ کرنے کی مہلت فراہم کریں۔