فیس بُک پر کسی شخص نے ناپسندیدہ بات تحریر کی یا ایسا کمینٹ کیا جو ناپسندیدہ ہے تو ایک بٹن دبا کر اسے انَ فرینڈ یا بلاک کر دینا بہ ظاہر ایک معمولی سا عمل نظر آتا ہے، مگر اس کے معاشرتی و نفسیاتی مضمرات نظروں سے اوجھل رہتے ہیں۔
درحقیقت یوں آدمی کسی سے بھی تعلق قطع کرنے میں آسانی محسوس کرنے لگتا ہے۔ اس کے نفسیاتی اثرات میں یہ امر بھی شامل ہے کہ آہستہ آہستہ اس کا انطباق عملی زندگی پر بھی ہونے لگتا ہے۔
ماضی قریب تک قطع تعلق کرنا ایک اہم عمل رہا ہے۔ بہت سے دوست ، رشتہ دار اور شناسا جذباتی طور پر قریب نہ ہوتے ہوۓ بھی قطع تعلق کے لیے بہت ہمت مانگتے تھے۔مروت ایک معاشرتی جوہر ہے جو آدمی کو آمادہ کرتا ہے کہ کسی کی معمولی فروگزاشت کو نظر انداز کر دیا جاۓ اور تعلق جیسے قیمتی جذبے کو قائم رکھا جاۓ۔سیانے یہ بھی کہتے آۓ ہیں کہ تعلق بنانے میں برسوں لگتے ہیں اور توڑنے میں لمحے۔ البتہ عموماً لوگ یوں یک دم تعلق نہیں توڑتے رہے۔
ادھر یہ اعتراض کیا جا سکتا ہے کہ عملی معاشرتی زندگی اور سوشل میڈیا کی دنیا کے حقائق مختلف ہیں۔
سوشل میڈیا کی غیر حقیقی زندگی ہی اصل زندگی بنتی جا رہی ہے اور سوشل میڈیا کے دوست اس زندگی کے دوست۔لوگ اپنے دوستوں سے زیادہ وقت سوشل میڈیا فرینڈز کو دے رہے ہیں۔آئندہ یہ غیر حقیقی زندگی ہی حقیقی زندگی ہو گی۔ اس مصنوعی دنیا میں کیا گیا عمل حقیقی زندگی کے عمل برابر ہو گا۔
انسان اپنی عادتوں کا غلام ہوتا ہے۔
جب وہ اس مصنوعی زندگی میں ایک عمل کرنے میں آسانی محسوس کرے گا تو اس عمل کو بارہا دوہرانے سے وہ عمل اس کی عادت بن جاۓ گا۔ اور یہ عادت عملی زندگی میں بھی اپنا رنگ دکھاۓ گی۔وہ مروت، تکلف اور جھجھک جو اس کے مزاج کا حصہ تھی آہستہ آہستہ معدوم ہوتی جاۓ گی۔ اورایک دن ایسا آۓ گا کہ اُسے اپنا حقیقی تعلق قطع کرنا اتنا ہی آسان معلوم ہو گا جتنا بٹن دبا کر بلاک کرنا۔
سوشل میڈیا کے بے شمار فوائد ہیں تو منفی اثرات بھی کم نہیں۔یہ انسان کے جذبات و احساسات کو کند کرتا جا رہا ہے۔ بازار سے گزرتی اجنبی میت تک کو دیکھ کر دکانوں کے شٹر احتراماً عارضی طور پر بند کرنے اور گاڑیوں میں چلتی موسیقی آف کرنے والوں کے بیچ سے روز جنازے گُزریں گے تو آہستہ آہستہ وہ بے حِس ہوتے جائیں گے۔
یہاں تک کہ ایک دِن جب اُن کے جنازے گزریں گے تو لوگ اپنے منہ پھیر کر معمولاتِ زندگی میں مصروف رہیں گے۔ یوں جیسے ایک آدمی اور ایک جان ور کی موت میں کوئی فرق نہیں رہا۔
{ یہ بلاک کے حق یا مخالفت میں تحریر نہیں،فقط اس کے نفسیاتی اثرات کا مختصر تاثراتی تجزیہ ہے}.