لیجیے صاحب ۔۔۔ بالآخر "ملزم” جناح حاضر ہو ہی گئے۔ عماد بزدار صاحب کی کتاب نے دن کی روشنی دیکھ لی، اور اب ہمارے فہم و شعور کو جِلا بخشنے کو تیار ہے۔
عصرِ حاضر کے ایک بڑے مذہبی اسکالر کا کہنا ہے کہ کسی سے اختلاف کرنے کا سلیقہ یہ ہے کہ پہلے اس کا مؤقف ہوبہو اس طرح جان اور سمجھ لو جیسا وہ خود اسے جانتا اور سمجھتا ہے ۔۔۔۔ تاکہ اس کا ما فی الضمیر آپ پر پوری طرح واضح ہو جائے، تب ہی اس سے متعلق آپ کا اختلاف معروضی بنیادوں پر استوار ہو سکے گا۔ بصورت دیگر یا تو وہ تنقیدِ محض بن کر رہ جائے گا اور یا پھر آپ کے پہلے سے طے شدہ مؤقف کی تکرار ۔۔۔۔ دونوں صورتوں میں تحقیق و تجزیہ کا حق ادا نہ ہو گا۔
عماد صاحب نے ناصحین کے تمام تر نصائح نیز ممکنہ خطرناک نتائج کی وارننگز کے باوجود اس کتاب کا نام "ملزم جناح حاضر ہو” رکھا تاکہ وہ قائد کے ان ناقدین کا مقدمہ سامنے رکھ سکیں جو ان کے متعلق نت نئی باتیں ہمیں بتاتے رہتے ہیں، خاص کر ان کے سیاسی قد کاٹھ کے متعلق۔ لطف کی بات یہ ہے کہ اس کتاب میں ان تمام اعتراضات کا جواب بھی انہوں نے ان حوالوں سے لیا ہے جو "متاثرینِ مطالعہ پاکستان” نہیں ہیں۔ اب ان گواہوں کے بیانات اور تمام ثبوت و شواہد سے اس مقدمہ کا کیا نتیجہ نکلا، جناح ملزم سے مجرم بنے یا پھر قائد اعظم ۔۔۔ یہ جاننے کے لیے آپ کو اس کتاب کو پڑھنا ہو گا۔ میں یہ نہیں کہتا کہ یہ کتاب پڑھ کر آپ کی سوچ میں کوئی انقلاب برپا ہو جائے گا، تاہم مجھے اس بات کا پورا یقین ہے کہ اسے پڑھنے کے بعد آپ یہ اعتراف ضرور کریں گے کہ اگر آپ اس کا مطالعہ نہ کرتے تو اپنے ساتھ زیادتی کے مرتکب ہوتے !