کیا انتظار حسین کی ۱۹۵۵ ،” میں شائع ہونے والے افسانوں کے دوسرے مجموعے ’’کنکری‘‘ کی پہلی تحریر کو کتاب کا دیباچہ کہا جائے گا یا افسانہ مان لیں؟ ۔ یادرہے جس تحریر کی میں بات کر رہا ہوں اس پر ’’انجنہاری کی گھریا‘‘ کا عنوان جمایا گیا ہے اور شاید انتظار حسین نے اسی سوال سے پہلو بچا کر نکلنے کو یہ تحریر کتاب کے آغاز میں رکھ دی کہ جو اسے فکشن نہ مانے ؛ دیباچہ سمجھ کر پڑھ لے۔ اگرچہ دیباچہ یا فکشن پارہ ہونے کے مخمصے کا التزام یہاں ہے مگر میں اسے افسانہ مان کر یہاں مطالعے میں لا رہا ہوں۔ میرے پاس اسے افسانہ تسلیم نہ کرنے کا کوئی جواز نہیں ہے۔ اچھا، مان لیا کہ اس میں افسانہ نگار نے افسانے کے تخلیقی عمل اوراس کے بیانیے کی ساخت کے بارے میں اپنے تنقیدی خیالات کا اظہار کیا ہے اور یہ بھی تسلیم کہ جب خیالات سے معاملہ ہو تو اس میں سے کہانی کا بھید اپنے لیے جگہ نہیں بنا پاتا؛لیکن میں اسے یوں فکشن مانتا ہوں کہ اس میں ایک افسانہ نگار کا اپنا مشاہدہ ، خیالات اور احساسات وقوعے میں ڈھل کر ایک مربوط کہانی بنا رہے ہیں ۔ کہیں بھی تنقیدی زبان یا کتابی حوالہ جات کا سہارا نہیں لیا گیا اور یہی بات اس تحریر کو فکشن بنا رہی ہے۔ وہ لکھتے ہیں :
’’۔۔۔ لیکن مشکل یہ آ پڑی ہے کہ میں کسی ایسی ہستی کے حوالے سے بات کرنی چاہتا تھا جو افسانہ نگاری کے معاملے میں میرے لیے سند ہو۔ سند کو میں نے سرٹیفکیٹ کے معنوں میں استعمال نہیں کیا ہے۔ یہ سرٹیفکیٹ ہمارے یہاں بالخصوص شعر بالعموم نثر کی کتابوں سے دن رات ان گنت لکھنے والوں کو عطا ہوتے ہیں۔‘‘
وہ اضافہ کرتے ہیں :
’’میں تو یہ کہہ رہا ہوں کہ زندہ تعلق میرا کتابوں سے نہیں مخلوقات سے رہا ہےاور سند اپنے لیے زندہ نجی تعلق کا معاملہ ہے ۔‘‘
کہہ لیجئے جب انتظارحسین افسانے کا یہ افسانہ لکھ رہے ہوں گے تو اس صنف کی بابت کسی نظری بحث میں نہیں پڑنا چاہتے ہوں گے ۔ اگرچہ اوپرمقتبس ہونے والی سطور سے یہ گمان گزر سکتا ہے کہ وہ اس صنف سے متعلق کوئی معاملہ سلجھانے کو فکر و استدلال سے کام لے رہے ہیں مگرآپ کچھ آگے چلیں گے تو میری طرح اس خیال کو جھٹک دیں گے اور جان جائیں گے کہ ان کے یہاں افسانہ مضمون جیسی تحریر نہیں جس میں خیالات بھڑا لیے جاتے ہیں بلکہ ایک جیتا جاگتا وجود ہے۔ گویا ایک طرح کی مخلوق جس سے زندہ نجی تعلق قائم کیا جاسکتا ہے۔ جس نوع کا تخلیقی بھید اس افسانے کا موضوع ہوا ہے دراصل وہی انتظار حسین کو محبوب رہا ہے۔ سب مانتے ہیں کہ ہر طرح کی ماجرا نگاری افسانہ نہیں ہو سکتی اور ماجرے میں کچھ گنجائشیں رکھتے ہوئے ایسے متن میں ڈھال لینا کہ اس میں وہ کچھ سما جائے جو کسی اور طرح سے بیان ہونا ممکن نہ تھا، اُسے افسانہ بنا دیتا ہے؛ محض یک سطحی کہانی نہیں افسانہ، بعینہ وہ افسانے کو مخلوقات جیسی کہہ کر، یہ وضاحت بھی کر دیتے ہیں کہ اس سے مراد ہر طرح کی مخلوقات نہیں جن سےافسانے کی سند لے جا سکتی ہو۔ ایک خاص نوع کی مخلوق ہی اس منصب کی مستحق ہو پائی۔
’’ یہاں میں نے مخلوقات میں بھی امتیاز برتا ہے ۔ آخر میں شہد کی مکھی کا حوالہ بھی تو دے سکتا ہوں جس پر وحی نازل ہونے کی سند موجود ہے، یا بئے کو بیچ میں لے آتا جس کے احساس تعمیر کے بڑے بڑے قصیدے پڑھے گئے ہیں ۔ مگر اول تو میں ان دونوں میں سے کسی کو افسانہ نگار تسلیم نہیں کرتا ۔ دوسرا یہ کہ میں ان سے ذاتی اور جذباتی تعلق نہیں رہا۔‘‘
کہہ لیجئے انتظار حسین کے نزدیک کوئی وقوعہ یا ماجرا تب تخلیق میں ڈھلتا ہے جب اس میں موجود قضیے سے افسانہ نگار کا ذاتی اور جذباتی تعلق قائم ہوتا ہے۔ اب یہ خیال بھٹکنے سے ہوا یا ایسا انہوں نے قصداً کیا ہے کہ بات کا رخ کسی مخلوق کے ’افسانہ‘ ہونے کی بہ جائے ’افسانہ نگار‘ کی طرف ہوگیا ہے۔اس کی ایک توجیہہ یہ ہو سکتی ہے کہ یہاں پہنچ کر شاید وہ اس احساس کے زیر اثر ہیں کہ جب زندہ نجی تعلق قائم ہو جاتا ہے تو تخلیق اور تخلیق کار ایک ہو جاتے ہیں ۔ خیر،معاملہ کوئی بھی ہو؛ یہاں بات وہ نہیں ہے جس کی طرف ایک موقع پر منشایاد نے اشارہ کیا تھا کہ افسانہ لکھتے ہوئے وہ کردارکی کھال میں جا بیٹھتے ہیں کہ یہاں سیدھا سیدھا افسانے کی جگہ افسانہ نگار آگیا ہے ؛ گویا کوئی کسی کی کھال میں نہیں اترا اس نے دوسرے کی جگہ لے لی ہے۔ شہد کی مکھی یا بئے کو افسانہ نگار تسلیم نہ کرنے کا جواز بھی خوب رہا۔ شہد کی مکھی کیوں نہیں؟جواز دیکھیے:
۱۔’’ شہد کی مکھی کے سلسلے میں تو یہ دقت ہے کہ پہلے ہی ’شہد‘ کا لفظ آجاتا ہے اور خواہ مخوا ہ ایک قسم کی افادیت کا دُم چھلا اُس کے ساتھ لگ جاتا ہے۔یوں شہد کا چھتا گنا فیکٹری قسم کی چیز بن کر رہ جاتا ہے۔‘‘
۲۔ ’’اس افادیت سے میں چشم پوشی کر بھی لوں تو بھی بات نہیں بنتی ۔ شہد کی مکھی کا چھتہ اِس صورت میں بھی پنچائتی آرٹ سے آگے نہیں بڑھتا ؛ گویا کوئی بڑا قلعہ تعمیر ہو رہا ہے اور چھوٹے بڑے ان گنت معمار اس میں جٹے ہوئے ہیں ۔‘‘
(جاری ہے)